اکرم کنجاہی ۔۔۔ رضیہ سجاد ظہیر

رضیہ سجاد ظہیر

رضیہ دلشاد ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر سے شادی (۱۹۳۸ء) کے بعد رضیہ سجاد ظہیر کے نام سے لکھنے لگیں۔انہوں نے تراجم بھی کیے،بچوں کے لیے لکھا۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی اُن کا ایک مقام ہے۔ اُن کو کردار نگاری و سراپا نگاری پر بڑی دسترس تھی۔وہ کردار نگاری ایسی کرتی تھیں کہ اُن کا افسانہ کرداری افسانہ بن جاتا تھا۔ وہ عام طور افسانوں کے لیے کردار اپنے گردو پیش اور ماحول سے منتخب کرتی تھیں اور اکثر افسانے واحد متکلم میں لکھتی تھیں اور خود بھی پلاٹ کا حصہ بن جاتی تھیں۔

انہوںنے کئی ناول لکھے۔ جن میں اللہ میگھ دے، سرِشام، کانٹے اور ثمن شامل ہیں۔وہ ایک روشن خیال اور ترقی پسند خاتون تھیں۔ ۱۹۳۶ء میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہونے کے ساتھ ہی وہ اس تحریک سے وابستہ ہوگئیں اور کمیونزم رجحان سے خاص طور پر متاثر تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناولوں کے موضوعات اور مقاصد جو ابھر کر سامنے آتے ہیں اُن سے ترقی پسند رجحانات کی نشاندہی ہوتی ہے۔ اس تحریک کے زیر اثر رضیہ سجاد ظہیر ایسی سماجی زندگی کا تصور پیش کرتی ہیں جس میں محنت کش اور غریب انسان کی زندگی کے لیے ایک ایسا ماحول تیار ہو جائے جہاں انسان کے ذریعے انسان کا استحصال اور نہ ہی ان کے ساتھ بُراسلوک ہو۔

رضیہ سجاد ظہیر زندگی میں مساوات اور برابری کے حقوق کی شدید خواہش مند دکھائی دیتی ہیں۔ اللہ میگھ دے اور سر شام اسی رجحان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ اُن کا ناول’’سمن‘‘ ۱۹۶۲پڑھ کر اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان میں غور و فکر کی گہرائی ہے۔ ایک ایسی لڑکی کی داستان زندگی بیان کی گئی ہے جس سے معاشرتی زندگی میں کوئی رتبہ مقام حاصل نہیں ہے، باوجود اس لڑکی میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو ایک مثالی لڑکی میں ہونی چاہیے۔ لوگ اس کی خوبیوں کو پسند بھی کرتے ہیں۔ اس کو سراہتے ہیں لیکن چونکہ وہ طوائف کی لڑکی ہوتی ہے اس لیے سماج کا کوئی فرد اسے اپنی بیوی بنانے پر راضی نہیں ہوتا۔ اس ناول کے توسط سے سماج کی اس کمزوری کو بیان کیا ہے جو دور حاضر کی دکھتی رگ ہے۔ عدم مساوات کے خلاف آواز بلند کرنے والے اور برابری کے حقوق دلانے والے بھی موقع آنے پر منہ پھیر لیتے ہیں۔ اس طرح کی لڑکیوں کا مرتبہ بلند تقریروں میں ہی ملتا ہے لیکن دل میں جگہ دینے کے لیے کوئی شخص بھی تیار نہیں ہوتا۔

Related posts

Leave a Comment